اتنا پڑھ لکھ کر بھی کیا فائدہ جب انسان خود کو مسلمان بھی کہے، تعلیم یافتہ بھی کہے، اپنے عزیز و اقارب میں خود کو سمجھدار اور باشعور بھی سمجھے لیکن اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پڑھائی کے دوران ظالم اور جابر بن کر ان پر چیخ چلاکر اپنے اندر کی فرسٹیشن اور بھڑاس بھی نکالے؟
میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ پڑھی لکھی عورتیں جو باہر کی دنیا میں ڈاکٹر، ٹیچر یا دیگر شعبہ جات کی ماہر ہوتی ہیں وہ اپنے گھروں میں چھوٹے بچوں کے ساتھ اسقدر گھٹیا سلوک کرتی ہیں جیسے یہ بچے اللہ نے انہیں ظلم کرنے کے لیے مفت میں بخش دیے ہیں کہ ان کی شخصیت کا جنازہ نکال دو ذہنی طور پر خوفزدہ اور مفلوج کرکے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ بچے پڑھ رہے ہوں اور اسکول کا کام کررہے ہوں تو ان کی زیادہ تعریف نہیں کی جاتی لیکن اگر وہ بچہ ایک غلطی یا چند غلطیاں کرجائےتو اس قدر طنز و تنقید، جارحیت اور تھپڑ مارے جاتے ہیں کہ وہ بچہ ڈرا سہما رہ کر کام کرتا ہے۔
مزید یہ کہ اس قدر بدتمیزی اور جہالت کے ساتھ اپنے بچوں سے باتیں کرتی ہیں کہ مجھے ایسی خواتین سے شدید نفرت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ مائیں ہیں جن کے سبب چھوٹے بچے اسلام سے بے زار ہوجاتے ہیں ۔
اگر ایسے ہی بچوں کو پڑھانا ہے تو کیا پڑھایا جارہا ہے؟
کتاب کے رٹے اور عملی زندگی میں جاہلانہ رویے؟
کس قدر بے شعور اور جاہل ہوچکے ہیں ہم لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں۔
نہ ہمارے ہاتھ سے کوئی محفوظ اور نہ ہماری زبان سے کوئی محفوظ۔