جب لوگوں کی نظروں کے سامنے لاکھوں اور کروڑوں کے رزلٹس کے خزانے جگمگارہے ہوں تب ان لوگوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ صبر شکر کریں اور قناعت سے کام لیں، کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکے گا۔ خصوصا ایسے ملک میں جہاں اکثر لوگوں کا اوڑھنا بچھونا جھوٹ، دھوکہ بازی ہو اور 500 روپے کے لیے بھائی بھائی کا قتل کردے۔
جہاں کے تعلیمی نظام میں ذہین مائنڈسیٹ کو بےکار قرار دیا جائے اور لکیر کے رٹا فقیروں کو "نوکر" کی لائن میں لگانے کے لیے تیار کیا جائے۔
جہاں ترقی اپنی زبان کے بجائے انگریزی میں ممکن سمجھ کر دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا بن جایا جائے۔
جہاں اپنی تہذیب بدل کر مغربی تہذیب کی غلامی کی زنجیریں پہن کر فخر و غرور سے بے شعور سر اٹھایا جائے۔
جہاں اکثر لوگوں کی باتیں اعلی درجہ کی تحقیقات کے بجائے کیا کھانا، کیا پہننا تک محدود رہیں۔
جہاں احساس کمتری اور محرومیوں سمیت جوان ہوا جائے۔
جہاں ایمانداری و سچائی پر جوتوں کے تمغے دیے جائیں۔
جہاں اللہ محض ایک لفظ کی حیثیت سےزیادہ اور اسلام محض فائدے کی دکان سےزیادہ کوئی اہمیت نہ رکھے۔
جہاں کے اکثر لوگ ظالم، جابر اور کھلم کھلا پکے نافرمان و بدکردار ہوں۔
وہاں صبر و شکر، قناعت و پاکیزگی کے ساتھ کروڑوں روپے تک سفر کے لیے کئی کئی سال انتظار کرنے کی حماقت کوئی کیوں کرے جبکہ چند ماہ اور سال بھر میں لاکھوں کمانے والوں کی کہانیاں ان کے آس پاس گردش کررہی ہوں اور پھر وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کا شارٹ کٹ اور حرام طریقہ استعمال کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرتے ہیں کیونکہ دولت ان کے لیےخدا بن جاتی ہے۔