ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں "اسکزوفرینیا" نامی مرض کے بارے میں بتایا گیا اور ایسے مریضوں کی حالت بتائی گئی۔ مضمون اس لنک پر دیکھا جاسکتا ہے ۔
مجھے شدید غصہ آتا ہے جب دیکھتا ہوں کہ معاشرے کے ذہین ترین لوگوں کو مریض کا لیبل لگا کر نفسیات کے نام پر انہیں مزید نفسیاتی مریض بنایا جاتا ہے۔اس سے میڈیکل کے دھندے چل رہے ہیں اور نام نہاد ماہر نفسیات (جنہیں اپنی نفسیات کا علاج کرنے کی ذیادہ ضرورت ہے) ذہین انسانوں سے پیسے بٹور رہے ہیں جبکہ اکثر لوگ ذہنی مریض نہیں ہیں۔
اس مضمون میں تعویذ گنڈوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر مذہب کے نام پر تماشے باز وں پر انگلی اٹھانے کی جرات ہے تو دنیاکے نام پر ایک کاغذی ڈگری پکڑ کر نفسیات لفظ کے دھندے اور میڈیکل کی آڑ میں چھپے ڈاکووں کے ساتھ کاروبار پر انگلی اٹھانے کی جرات کیوں نہیں ہے؟
اس لیے کہ ہمارے بہت سے مضمون نگاروں کو شرم آتی ہے۔ اس لیے کہ تعویذ گنڈے جیسے الفاظ استعمال کرکے مذہب پر گالی اچھالنا آسان کام ہے۔اس لیے کہ ہمارا معاشرہ ملحدانہ اور گمراہ روش اختیار کرچکا ہےجہاں مولوی لفظ پکڑ کر جب مرضی اسلام پر بھڑاس نکال لیتے ہیں۔یہ ہے ان پڑھے لکھے جاہلوں کی اصلیت۔
اب میں آتاہوں اس بیماری کا درخت پاش پاش کرنے کی طرف جسے ان جاہلوں نے اپنے الفاظ سے کھڑا کیا ہے۔کیونکہ جن لوگوں کو یہ ذہنی مریض کا لیبل لگاتے ہیں مریض وہ نہیں بلکہ اس معاشرے کے وہ بے حس جانور نما لوگ ہیں جن کے اندر سے انسانیت مرچکی ہے۔یہ مردہ لوگوں کا معاشرہ ہے جہاں زندہ ، باشعور اور مخلص لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا مانا جاتا ہے۔
ایسے لوگ ذہنی مریض نہیں بلکہ مفکر اور بے پناہ صلاحیتیوں کے حامل لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں لیا جاتا۔ انہیں موقع نہیں دیا جاتا۔ ان کے راستے روکے جاتے ہیں ۔ انہیں ذلیل کیا جاتا ہے۔ انہیں آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ ان کے ٹیلنٹ کی تعریف نہیں کی جاتی۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس جاہل معاشرے کے جانور نما لوگوں کی رسومات، غلامی اور روایات پر چلنا پسند نہیں کرتے۔یہ لوگ مریض نہیں بلکہ یہی اصلی انسانیت دل میں جگائے رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو اس معاشرے کے بھیڑ چال چلتے لوگوں کے راستوں پر اندھے بہرے بن کر نہیں چلتے۔یہ ٹھیک ہے کہ ایسے لوگ سست، کاہل اور سوچتے رہنے والے نظر آتے ہیں لیکن اس کے پس پشت پورا ماضی بھرا پڑا ہوتا ہے۔ بچپن سے جوانی تک ایک درد ناک داستان سانسیں لے رہی ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے کے اکثر اندھے بہرے گونگے جاہلوں نے ایسے ذہین لوگوں کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ انہیں مریض، فضول اور نفسیاتی وغیرہ کہہ کر ظلم کا تماشہ لگا رکھا ہے۔ مسئلہ ان لوگوں کا نہیں بلکہ مسئلہ انہیں نہ سمجھنے والے بے بصیرت لوگوں میں ہے۔
یہ غور و فکر کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔یہ معاشرے کی اصلاح اور بڑے لیول پر کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔دنیا کے پڑھے لکھے اور جانوروں جیسی ز ندگی گزارنے والوں کی اکثریت ایسے ذہین لوگوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہتی ہے کیونکہ یہ ایسے ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جس کے سامنے جہالت پر مشمل معاشرے کے لوگ بے بس ہوجاتے ہیں۔
ذہین لوگوں میں سے مغربی ممالک میں جنہیں موقع مل گیا وہ ایڈیسن، نیوٹن، ایلن مسک، اسٹیو جابز وغیرہ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ پھر دنیا میں بھیڑ چال کے پڑھے لکھے جاہل ایسے لوگوں کے نام کو کیش کرتے ہیں۔ ان کے نام لے لے بھرم مارے جاتے ہیں۔کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔جبکہ مشرقی ممالک خصوصا پاکستان میں ایسے لوگ پیچھے دھکیلے جاتے ہیں کیونکہ وہ پاکستانی ہوتے ہیں۔
یہاں تو عام لوگوں کو بھی خاص مواقع نہیں ملتے تو خاموش طبیعت کے ذہین لوگ کہاں بتائیں کہ ان کے اندر کتنے طوفان موجود ہیں؟ ان کے ساتھ کیسے کیسے برے سلوک ہوتے ہیں؟
ہم لوگ تو اگلے کی ٹانگیں کھینچنے کے ماہر بن چکے ہیں۔ کسی کو آگے بڑھتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ خصوصا سوشل میڈیا اور جانور نما معاشرے کے نام نہاد مسلمانوں کے عمل سے خاموش طبیعت لوگ بہت بے زار ہوچکے ہیں۔ ا
س کی ایک خاص وجہ ہمارے معاشرے کا دوغلہ پن اور منافقت ہے۔ مذہب کے نام پر تماشہ بازی ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیاوی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی ڈکیتی ہے۔اس بات سے میں انکار نہیں کروں گا کہ اس میں ان ذہین لوگوں کی بھی غلطی ہے کہ اگر معاشرے کے اکثر لوگ گمراہ اور منافق ہیں تو انہیں کس نے روکا ہے کہ سچے اور اچھے مسلم بن جائیں اور ایک مثال بن کرپبلک کے سامنے آجائیں؟
یہ بھی رد عمل میں چڑچڑے اور تنقیدی بن جاتے ہیں۔اور بعض اوقات جارحانہ انداز اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں کوئی ساتھ بیٹھ کر سننے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس کام میں مدد نہیں کرتا جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس مضمون میں یہ نشانی بتائی گئی کہ ایسے مریض بے ربط باتیں کرتے ہیں۔ کبھی ایلن مسک کی تقریر سن لیں تومعلوم ہوجائے گا کہ دنیا بھر میں بزنس کی دنیا میں انقلابی انسان کیسے بات کرتا ہے۔
جہاں تک بے ربط کلام کرنے کی بات ہے تو کبھی قرآن کھول کر پڑھ لیں کہ اللہ کا کلام کس انداز میں ہے۔
لازمی نہیں کہ بے ربط جملے یا مختصر جملے لکھنے یا کہنے والا سمجھدار نہیں اور لمبی لمبی تقریریں اور کتابیں لکھنے والا بہت عقل مند ہوگا ورنہ تو کفار نے بھی بہت بہترین الفاظ میں کتابیں لکھی ہوئی ہیں۔ لہذا یہ لاجک ہی فضول ہے۔اتنا ثبوت کافی ہے۔
ان ذہین لوگوں سے بد سلوکی ہم کرتے ہیں جو ان کی ذہانت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کے سوالات کے جواب دینے سے ہمارے نام ناد دانشور اور اکثر مذہبی لوگ بھی محروم ہیں۔ نفسیات کے نام پر ذہین لوگوں کے ساتھ ظلم کرنے سے باز آجاو ۔ ان سے کبھی محبت سے پوچھو تو سہی کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ کیا سوچتے ہیں؟ وہ کیا حل پیش کرنا چاہتے ہیں؟ وہ انسانوں کے فائدے کے لیےکیا کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ان کے سامنے رکاوٹ کیا ہیں ؟
انہیں حوصلہ دو۔ انہیں ہمت بڑھاو۔ وہ بہت کچھ کرگزرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ناقابل یقین کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے اکثر لوگ چونکہ غلام سسٹم کے اندھے لوگ ہیں جو محض نوکری کرتے ہیں یا عام کام ۔ اس لیے جب کبھی ایسے ذہین لوگوں کی باتیں اور کام سنتے ہیں تو انہیں کہہ دیتے ہیں تم عجیب باتیں کرتے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ویسا نہیں ہوسکتا۔یہ اس دنیا میں ممکن نہیں۔تم حقیقت سے الٹی باتیں کرتے ہو وغیر ہ وغیرہ۔
اگر آپ ایسے ہی انسان ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ رجسٹر اور پین لے کر اپنےخیالات کو لکھنے کی عادت شروع کریں ۔اگر لیپ ٹاپ یا موبائل پر لکھنا ہو تو اسی پر لکھ لیں مگر اندر سے باہر نکالیں۔اپنے خیالات کا اظہار الفاظ کے ذریعے کریں۔ الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ آپ اپنے اندر کا سمندر باہر نکالیں اور دیکھیں کہ آپ کے اندر کا بھونچال کیسے انقلابی صورت اختیار کرسکتا ہے۔معاشرے کے لوگوں کے ہاتھوں خود کو بے چارہ اور مریض سمجھنے کی ضروت نہیں۔ان لوگوں نے تو نفسیات لفظ کے نام پر تماشہ لگا رکھا ہے۔آپ اپنے مشاہدات و تجربات الفاظ کے ذریعے منتقل کرنا شروع کردیں۔آپ کو جس جس نے توڑا ہے اسے معاف کریں اور خود کو بھی ماضی پر معاف کردیں ۔
اپنے ماضی کے گناہوں پر شرمندہ ہونے اور اللہ سے مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ وہ صرف متقی لوگوں کا دوست نہیں بلکہ گناہ گاروں کا بھی دوست ہے۔ ارے جس نے گناہ کا مزہ نہ چکھا ہو اسے کیا پتہ کہ گناہ کی لذت کیا ہوتی ہے اور اس سے پلٹنا کیسا جہاد نفس ہے؟ یہ اس سے پوچھو جسے گناہ کی لذت پکڑ لے اور وہ مایوسی کے اندھیروں میں موت کی آرزو کرے اور خواہش کرے کہ کاش کوئی انسان تو اس کے درد کو سننے سمجھنے والا ہوتا جسے وہ بتا سکے، سنا سکے لیکن صد افسوس ہم انٹرنیٹ پر دوسروں کو وقت دے دیتے ہیں لیکن پاس موجود ایک انسان کو حقیقی وقت نہیں دیتے خصوصا اگر وہ خاموش والدین ہوں۔
اگر اللہ آپ کا دوست نہ ہوتا تو موت تک توبہ کرنے کی مہلت کیوں دیتا؟ وہ تو انتظار کرتا ہے اپنے بندے کو دیکھ کر کہ کب یہ میری طرف آنے کا احساس پیدا کرے گا، میری دی ہوئی نعمتوں کو یاد کرکے شکر ادا کرے گا۔
ارے کب تک اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ دیکھ کر موجودہ نعمتوں کے بے قدری کرو گے؟ اب بھی کچھ نہیں ہوا ہے۔آپ کے ہاتھ پیر سلامت ہیں۔جسم میں جان ہے۔ زندگی کے تجربات ہیں ۔ کب ایک بار۔۔۔صرف ایک بار کہو گے کہ اے میرے اللہ بس بہت ہوگیا۔۔میں تیری رحمت پر یقین رکھ کر واپس آنا چاہتا ہوں مجھے معاف کردے، تیرے سوا کون ہے مجھے معاف کرنے والا؟
آپ دین اسلام پر عمل کرنے کے کوشش کریں جتنا آپ سے ہوسکے اور اللہ کے آگے جھک جائیں کیونکہ آپ کے دل کا سکون اس وقت آئے گا جب آپ سچے دل سے توبہ کریں گے۔آپ بے حس نہیں ہیں، ابھی آپ کا ضمیر زندہ ہے۔آپ معاشرے کے اکثر بے حس مردہ لوگوں سے بہت بہتر ہیں۔ اپنی اصلاح پر توجہ دیں اور اپنے آپ کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلانے کی کوشش کریں ۔ زندگی میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔کیونکہ اکثر ذہنی امراض گناہوں کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ہم سب اپنے اندر کی دنیا جانتے ہیں اور بے شک اللہ ہمارے دل پر آنے والے خیالات اور ہماری نیتوں سے خوب واقف ہے۔