کسی سے محبت ہو تو پھر محبوب کے درد کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔محمدصلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے فکرمند رہتے تھے ، تڑپتے تھے اور روتے تھے۔اور آج پانچ ارب انسان غیر مسلم ہیں جو جہنم میں جارہے ہیں۔ان کے نزدیک اللہ، محمدصلی اللہ علیہ وسلم، قرآن و اسلام کی کوئی اہمیت نہیں۔
یہ تو مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ اسلام کو غالب رکھنے کا کام جاری رکھتے اور غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرتے مگر اسلام کے نام پراکثر مذہبی مسلمان اپنے اپنے فرقوں کی تبلیغ میں لگے گئے اور دین اسلام کا خالص کام چھوڑ دیا۔
غیر مذہبی سوچ کے مسلمان دنیاوی شان و شوکت میں بھٹک گئے۔جس کے نتیجے میں عالم کفر غالب آگیا اور آج مسلمان تقریبا دو ارب تعداد میں ہونے کے باوجود کافروں کو روکنے کے قابل نہیں رہے۔وہ مشن جس کیلئے اللہ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا کہ اسلام کو تمام باطل ادیان و مذاہب پر غالب کردیں۔اس مشن سے غرض ہی نہیں۔اگر کوئی آٹے میں نمک برابر یہ کام کربھی رہا ہے تو محدود پیمانے تک۔
ہمارے مسلمان غیر مسلموں کے سامنے ایسے قابل مشاہدہ معجزات پیش نہیں کرتے کہ انہیں یقین کامل حاصل ہوجائے کہ صرف اسلام ہی سچا دین ہے اور اللہ ہی سچا خدا ہے بلکہ مسلمانوں کی اکثریت قرآن و حدیث کی آیات سناکر چاہتے ہیں کہ غیرمسلم فوراً مسلما ن ہوجائیں اور اپنا دین و مذہب چھوڑ دیں جبکہ یہ بے تکی حرکت ہے۔
کیا کوئی کٹر مذہبی مسلمان کسی ہندو ، عیسائی یا یہودی کی مذہبی کتابوں کی باتیں سن کراپنا دین اسلام چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں۔تو یہ امید کسی غیر مسلم سے کرنا کہ وہ پیدائش سے جس دین و مذہب پر قائم ہے اسے مسلمان کا لیکچر سن کر فورا چھوڑ دے؟ یہ بات ایک غیر جانبدار تلاش حق کے انسان کیلئے ناگزیر ہے۔
جب اللہ حقیقی زندہ خدا اور خالق کائنات ہے۔جب دین اسلام سچا ہے۔جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سچے اور آخری نبی ہیں۔جب قرآن اللہ ہی کا سچا کلام ہے تو یہ محال ہے کہ ان سب پر ایمان کامل رکھنے والا باعمل مسلمان کسی کرامت اور خرق عادت کو پیش کرنے سے عاجز رہے۔اور اگر ایسی عاجزی کسی مسلم کو پیش آرہی ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ اس کے عمل اور یقین میں کمزور ی ہے اور اسے اللہ کی قدرت پر یقین کامل حاصل نہیں۔
ایسے حالات میں ہم شہیدوں کی تروتازہ نعشوں کے قابل مشاہدہ دلائل پیش کرچکے تو مسلمانوں کو اللہ کا شکر ادا کرکے اس نعمت کو آگے پہنچانا چاہیے تھا کہ اس میں کوئی خطرہ اور جان کی قربانی نہیں بلکہ صرف اپنی صلاحیتوں کا استعمال اور مالی قربانی شامل ہے۔مگر صد حیف کہ فیس بک استعمال کرنے والے علماء، مفتی،دینی و مذہبی کام کرنے والے،غیر مسلموں سے بحث کرنے والے،لکھاری ودانشور، اخبارات میں لکھنے والے ،ٹی وی پروگرام میں آنے والے وغیرہ وغیرہ مسلمانوں میں سے ’ایک‘ مسلمان کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ’غلبہ اسلام‘ کے مشن کیلئے سامنے آتایا اپنے طور پر ان دلائل کو عوام تک پہنچانے کے لیے ہمارا ساتھ دینے پر حامی بھرتا۔
ان میں سے بہت سے مسلمانوں کی پروفائل کا تجزیہ کیا ہے۔ان سے بات چیت کی ہے۔لیکن حقیقت یہی سامنے آئی کہ یہ شہرت کے بھوکے اور منافق لوگ ہیں۔اسلام کی باتیں کریں گے۔انسانیت پر باتیں کریں گے۔مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی باتیں کریں گے۔معاشرے کے حال پر باتیں کریں گے۔یہ سب کچھ کریں گے کیونکہ یہ عملی طور پر کچھ نہیں کرنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ محنت کوئی دوسرا کرے۔یہ ’لفاظی‘کرنے والے مسلمان ہیں۔
اگر ایسا نہیں تو پھر سامنے آئے کوئی سچا اور مخلص مسلمان؟
جب ایسے ہی رویے رہیں گے تو اللہ سے عمر فاروق، صلاح الدین ایوبی، محمدبن قاسم جیسے لوگوں کی دعائیں کیوں کرتے ہو؟جب اللہ نے وہ کام دے دیا جو آسانی سے ہوسکتا ہے تو کیا یہ نعمت کم ہے؟کیا اس کام میں کوئی شک کی گنجائش رہ گئی؟ اگر ہاں تو پوچھ لو اور اگر نہیں تو اللہ کی نشانیوں کو چھپاکیوں رہے ہو؟