خلوص کا تعلق آخرت سے ہے اور اخلاص کے ساتھ عمل ہوگا تو آخرت میں اس کا بدلہ ضائع نہ ہوگا خواہ دنیا میں بظاہر ناکام ہوجائیں۔مثلاً بہت سے انبیاء کرام دنیاوی لحاظ سے صحیح طریقہ کار کے باوجود بظاہر ناکام دکھائی دیتے ہیں جبکہ درحقیقت اللہ کی نظر میں وہ کامیاب رہے اور کافروں کے نزدیک وہ ناکام رہے۔
اس لئے اس میں یہ سبق ہے کہ اگر آپ اللہ کے لیے مخلص ہوکر دین اسلام کی سربلندی کے لیے عمل کررہے ہیں اور آپ کے ساتھ لاکھوں کروڑوں پیروکار نہیں تب بھی مایوس اور اداس نہ ہوں کیونکہ اللہ کے سامنے کسی انسان کے پیروکاروں کی تعداد معنی نہیں رکھتی۔
آپ حضرت نوح علیہ السلام سے سبق لیں کہ تقریبا ساڑھے نو سو سال تبلیغ کے باوجود ان کی بات پر یقین کرنے والوں کی تعداد سو افراد سے بھی کم تھی۔
میرا نام محمد نوح بھی اسی نسبت سے ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اورحضرت نوح علیہ السلام کی محنت دیکھتے ہوئے اگر ساری زندگی کی کوششوں کے باوجود میرے پاس چند ایک مخلص مسلمان بھی دین اسلام کے خالص کام کو آگے بڑھانے کے لیے ساتھ دینے کو راضی ہوگئے تووہ بھی میرے نزدیک غنیمت ہوگا۔