میرے علم ، فراست اور دنیا پر نظر کے مطابق فرقہ پرست مسلمانوں کی اکثریت نے اپنی کوششیں اپنے فرقوں کی ترقی اوردیگر فرقوں کو کافر و مشرک قرار دینے تک محدود کرلی ہیں جبکہ دنیا کی طرف ذیادہ رجحان اور لگاو رکھنے والے اکثر مسلمانوں کو دین اسلام تمام باطل ادیان و مذاہب پر غالب کرنے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے لہذا روئے زمین پر تقریبا ستر فیصد غیرمسلموں کے سامنے مسلمانوں کی تقریبا پچیس فیصد آبادی ناکارہ ہوچکی ہے۔ باقی کے پانچ فیصد مسلمانوں میں سے کتنے فیصد سو فیصد اخلاص کے ساتھ غلبہ اسلام کے لیے کوششیں کررہے ہیں وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔
اسی لیے عملی طور پر مسلمان اکیسویں صدی میں عالمی طاقت نہیں بن پارہے نیز میں بغیر کوشش کے خالی دعاوں کا قطعی قائل نہیں۔یہ انبیاء کرام کا طریقہ نہیں اور نہ ہی اللہ کا ۔اگر ایسا ہوتا تو تقریبا دو ارب مسلمانوں کی صرف دعاوںسے دنیا کی کایا پلٹ چکی ہوتی اللہ کے حکم سے۔
اگر اللہ کے وعدے پر بغیر کوشش کیے ہی بیٹھنا اسلام کی حقیقی تعلیمات ہوتیں تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام عملی طور پر جنگوں کے میدان کے بجائے مصلے بچھاکر دعاوں کے ذریعہ معجزات و کرامات کے بل بوتے پر سارے کارنامے سرانجام دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی عملی طور پراسلام کو غالب کرنے میں مصروف رہےاور مسلم دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے اسلام کو کس قدر غالب کیا تھا اللہ کی مدد اور حکم سے تو کیا یہ سارے کام صرف دعاوں سے ہوئے ؟
آج اکیسویں صدی میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت سے آپ اسلام غالب ہوجانے کی امید لگائیں گے؟
ان کا مقصد اپنے اپنے فرقوں ، جماعتوں، تنظیموں ، اداروں وغیرہ کی تبلیغ اور چودہراہٹ قائم کرنا، مخالفین کو کافر و مشرک قرار دینا، علمی اختلاف کرنے والے کو دشمن اسلام سمجھ کر اس کے خلاف جھوٹے بیانات اور سازشیں کرنا اور اپنے ہاتھ میں قرآن و حدیث لے کر خود کو اسلام کا ٹھیکے دار ثابت کرکے چندہ، خیرات و صدقات کے ذریعہ عوام کو دھوکے میں رکھنا ہے۔
علمائے حق تو آج بھی موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر فرقہ پرستی کے زہر میں ڈوبے فرقی مسلمانوں میں نفرت کی آگ اس قدر بھیانک طریقے سے بھڑک رہی ہوتی ہے کہ یہ دوسرے فرقے کے مسلمان کو برداشت کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اسے مسلمان ہی نہیں مانتے اسی لیے اس کو دوبارہ مسلمان کرکے اپنے فرقے میں گھسیٹنے کے لیے کوششیں کررہے ہوتے ہیں تو یہ اپنی توجہ غلبہ اسلام پر کدھر سے لے کر جائیں گے؟
امید ہے کہ اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ دنیا بھر کے مسلمان اکیسویں صدی میں عالمی طاقت کیوں نہیں بن پارہے ؟ ایسے حالات میں دنیا میں تبدیلی دیکھنے کے خواہشمند اکثر مسلم صرف خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہمارے لیے ایک زناٹے دار تمانچہ ہے۔