اگر نفس کی سہولت کیلئے صرف انہیں سنتوں کا انتخاب کیا ہے جو ذاتیات سے تعلق رکھتی ہیں تو ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کردار معاملات میں نظر آتا ہے اور معاملات کے بارے میں ہی وہ احادیث ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ ’وہ ہم سے نہیں‘ یا ’وہ مومن نہیں‘۔
کبھی ٹھنڈے دل سے سوچو کہ اسلام پر عمل کرتے ہو یا نفس کی غلامی اپناکر رکھی ہے؟
بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک تم اس لئے گم شدہ راہ پر ہو کہ اسلام کے سیدھے راستے پر کبھی چلے ہی نہیں تھے ۔
اگر ڈاڑھی رکھنا سنت ہے۔
اگر پاجامہ اوپر رکھنا سنت ہے۔
اگر مسواک کرنا سنت ہے۔
اگر تین انگلیوں سے کھانا سنت ہے۔
اگر میٹھا کھانا سنت ہے۔
تو پھر۔۔۔۔
ہمیشہ سچ بولنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
وعدہ پورا کرنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
پڑوسیوں کا خیال رکھنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
مجبور و بے سہارا عورتوں کی مدد کرنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
فاقہ کرنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
جوانی میں چالیس سالہ عورت سے شادی کرنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
جوانی میں ظالموں کے خلاف گروپ بناکر ظلم روکنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
کافروں کو اسلام میں داخل کرنے کیلئے کوششیں کرنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
اگر سنت پر عمل کرنے کا بہت زعم ہے تو پھر ان سنتوں پر بھی عمل کرو۔ صرف نفسانی مزے لینے کی خاطر سنت کی آڑ میں دین کے ساتھ کھلواڑ کرنا کیا مذاق ہے؟