ایک سیدھا راستہ وہ ہوتا ہے جو اپنی راہ کے مسافر کو منزل تک پہنچادیتا ہے ۔یہ مسافر پر انحصار کرتا ہے کہ اسکے سفر کرنے کی رفتار کتنی تیز ہے مگر بالآخر وہ منزل تک پہنچے گا۔
اسی طرح خالق کائنات یعنی اللہ تک پہنچنے کا ایک ہی سیدھا راستہ ہے جس پر شیطان قسم کھاکر بیٹھا ہے کہ کسی کو ادھر نہیں آنے دے گا باقی جس راستے پر مسلمان جانا چاہے چلا جائے۔
بالکل اسی طرح اللہ نے اپنی طرف آنے والے سیدھے راستے کی واضح نشاندہی کردی تھی اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تک پہنچنے کا راستہ بتا دیا تھا۔
مسلمانوں کی اکثریت بچپن سے بڑھاپے تک رسمی عبادت کرتی ہے اس لیے یہ لوگ کبھی اللہ تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ انہوں نے اسلام صرف رٹا لگانے اور چند رسومات پوری کرنے کی حد تک سمجھ رکھا ہے ۔ ان کی خود ساختہ عبادات نہ نماز ہیں اور نہ ہی روزے، بلکہ بہت سے غسل کا طریقہ تک نہیں جانتے۔
۱- اسی وجہ سےخود ساختہ نماز پڑھنا انہیں برائی و فحاشی سے نہیں روکتا جبکہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
۲- خود ساختہ بھوکا پیاسا رہ کر روزہ رکھنا انہیں پرہیز گار نہیں بناتا جبکہ روزے اس لئے فرض کئے گئے تاکہ مسلمان پرہیز گار بن جائیں اور جو مسلمان روزہ رکھ کر جھوٹ و دیگر حرام کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں۔
۳- زکوٰۃ والے تو برائے نام ہی رہ گئے کیونکہ جس کے پاس مال ہوگا وہی زکوۃ دے گا اور اس میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔
۴- حج کیلئے لاکھوں روپیہ چاہئے اور حج کیلئے پیسہ رکھنے والے اکثر مسلمان اپنی زندگی میں جھوٹے، چور، مکار، فریبی، حق تلف کرنے والے ہوتے ہیں جن کا مال حرام ہوتا ہے ۔ اس لئے انہیں حج کے بعد بھی زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوتا البتہ پہلے سے زیادہ حرام خور اور بدکردار بن جاتے ہیں۔ا س کی ایک وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا نفس خود کو بہت پاکباز اور اعلی درجہ کا سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ تم نے حج کرلیا ہے۔ اللہ کے نزدیک تمہارا کوئی مقام ہے اور یہی غرور انہیں دنیا وی محبت میں لے ڈوبتا ہے۔
یہ سب اسلام کی عمارت کی بنیادیں ہیں۔ جس مسلمان کی عمارت کی بنیادیں ہی زندگی بھر نہ بن سکیں گی اس کے پاس کیا جمع پونجی ہے ماسوائے خاک کا ڈھیر جمع کرنے کے؟ اور وہ دنیا کی زندگی میں یہی سمجھتے رہے کہ بہت اچھے کام کررہے ہیں۔