اسلام ایک مکمل دین ہے اور ہر وہ شخص جو حضرت محمدﷺ کو آخری نبی مانے اور تمام صحابہ کرام کو مسلمان تسلیم کرے اور صحابہ کے طرز فکر و عمل کے مطابق جتنا اس سے اس دور میں ہوسکے اپنے اعمال کرنے کے لیے کوشش جاری رکھے تو وہ مسلم ہے اور دین اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔
دین اسلام کے ساتھ اہل علم کے ہاتھوں صدیوں سے ایک عجیب مذاق ہورہا ہے کہ اسلام پر عمل کرنے کے بجائے اسکے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہر فرقے والے نے ایک ہی حدیث رٹ لی ہے اور وہ اپنی صداقت کیلئے اسی حدیث کا راگ الاپتا نظر آتا ہے کہ امت کے تہترفرقے ہونگے اور صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔
اس وقت بدقسمتی سے اسلام میں موجود تمام فرقوں کا دعوی ہے کہ صرف ان کاہی فرقہ جنتی ہے اور ان کے سوا دیگر تمام فرقے جہنمی ہیں اور یہ لوگ ثبوت کے طور پر تہتر فرقوں والی حدیث کو بطور دلیل بنیاد بناتے ہیں۔
یہ بات تو عقل سے ہی سمجھنا آسان ہے کہ کوئی بھی فرقہ خود کوجہنمی اور غلط نہیں کہے گا اور اگر سب فرقے والوں کی بات تسلیم کرلی جائے تو دیگر سارےفرقوں کے انسان جہنمی تسلیم کرنے پڑیں گے لیکن اگر تمام ہی فرقوں کو جہنمی مان لیا جائے تو پھر حضورﷺکی تہتر فرقوں والی خبر کو کیا کہا جائے گا ؟
اس سے پہلے کہ میں حدیث کی وضاحت کروں ایک لمحے کیلئے غورکیجئے کہ کیا اللہ جھوٹ بول سکتا ہے؟ کیا حضرت محمدﷺجھوٹ بول سکتے ہیں؟ دونوں کا ایک ہی جواب ہے کہ نہیں، ہرگز نہیں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اللہ قرآن کے ذریعہ کیا بتا رہا ہے؟
1) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے،سوره انعام، آیت ۱۵۹
۲) مگر انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔، سورہ النبیاء، آیت ۹۳
جہاں تک حضورﷺ نے تہتر فرقوں کے حوالے سے علم دیا تو یہ سمجھ لیں کہ فرقہ کا مطلب گروہ ہوتا ہے جو ایک ایک فرد کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ اگر صحابہ کرام جیسے اعمال والا ایک شخص پاکستان میں ہو، ایک شخص امریکہ میں ہو، ایک شخص سعودی عرب میں ہو تو ایسے افراد کے مجموعے کوبھی فرقہ/گروہ/جماعت وغیرہ کہا جائے گا یعنی ایسے افراد کا فرقہ جو اپنے اعمال میں صحابہ کے طریقے پر ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص جو اپنے اعمال میں حضورﷺ کی پیروی کرتا ہو اور کسی روایتی فرقے سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ جہنمی ہو جائے۔
دوسری بات یہ کہ اگرحضورﷺ کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف ایک ہی مخصوص فرقہ جنت میں جائے گا تو ایسا ہونا ہرگز ناممکن ہے کہ آپﷺ نے جان بوجھ کر اس فرقے کا نام چھپالیاہوتاکہ ا ن کی امت کے تمام فرقے آپس میں ایک دوسرے کو کافر، مشرک قرار دیں ،ایک دوسرے کو قتل کریں، جہنمی ہونے کے فتوی جاری کریں اور یہ سب آپس میں لڑکر مر جائیں۔اس طرح تو یہ ایک بہتان ہوگا کہ نعوذباللہ امت کو جان بوجھ کر فساد میں مبتلا کردیا گیا۔
1400سالوں سے آج تک ہر صدی میں کئی فرقے گزرے ہوں گے ۔صرف آج کل کے چند فرقے ہی جنتی یا جہنمی کیسے ہوگئے حالانکہ انکا وجود تو پہلے کبھی تھا ہی نہیں؟
تیسری بات یہ کہ اس حدیث سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرما دیا تھا ’اسی لئے فرقے بن گئے یا فرقے بننا لازمی ہیں ‘حالانکہ حضورﷺ نے صرف مستقبل کے بارے میں پہلے سے اطلاع دی تھی کہ تہتر فرقے بن جائیں گے۔ حضور ﷺ نے یہ حکم کہاں دیا کہ ’ میرے بعد فرقے بنا لینا؟
کیا آپ کی عقل کام کررہی ہے؟
کسی کام کو کرنے کا حکم دینے اور مستقبل کی پیش گوئی کرنے میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔حضورﷺ نے اطلاع کر دی تھی،فرقے بنانے کا حکم نہیں دیا تھا اور اس اطلاع کا مقصدفرقوں در فرقوں میں خود کو تقسیم کرنے سے باز رہنا تھا جبکہ فرقے والوں کی ساری محنت و کوشش کا ذیادہ تر مقصد انسانوں کو اپنے فرقوں میں گھسیٹنے پر ہے نہ کہ مسلمان بناکر دین اسلام میں داخل کرنے پر جیسا کہ اس کا حق ہونا چاہیے۔
چوتھی بات یہ کہ ہر فرقے کے بانی نے اپنا فرقہ بنایا اور پھر اپنے فرقے کو اسی حدیث سے ثابت کرنا شروع کردیاکہ وہی فرقہ جنتی ہے۔اور پھر اسکے لئے قرآن و حدیث سے اپنے حق میں دلائل نکالنے کا ایک کھیل شروع ہوگیااور یہ سب تماشہ آپ کو ہر فرقے میں ملے گا۔ خود کو حق ثابت کرنا اور دوسرے کو غلط ثابت کرنا۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ کسی ایک مخصوص فرقے کی اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ورنہ حضورﷺ اس فرقے کا نام بھی لازمی بتا دیتے ۔
اب یہ بات سوچنے کی ہے کہ حضورﷺ نے فرقہ کا نام بتانے کے بجائے صرف یہ کیوں بتایا تھا کہ جو ان کے صحابہ کے طریقے پر ہوگا ؟ اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ اللہ نےکیا بتایا ہے وہ میں اوپر بتاچکا۔
اب اگر اللہ تفرقہ نہیں چاہتا تو پھر حقیقت کیا ہے؟ دیکھئے بات صرف اتنی سی ہے کہ اللہ کو دین اسلام بہت پسند ہے اور جو انسان بھی اسلا م کے واضح اور ٹھوس بنیادی عقائد مثلاً اللہ کو خدا ماننا، حضرت محمدﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا، تمام فرشتوں و آسمانی کتابوں پر ایمان لانا، موت کے بعد زندگی اور تقدیر پر ایمان کے ساتھ تمام صحابہ کرام کو مسلم تسلیم کرنا جیسے عقیدہ پر قائم اور مضبوط جما ہوا ہے اوروہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق موجودہ گمراہی کے دور میں نیک اعمال کرنے کی کوشش کررہا ہو بغیر کسی روایتی مخصوص فرقے میں شامل ہوئے تو اسکا شمار اسی فرقے/گروہ/جماعت میں ہوگا جومسلمانوں کی ہے اور کسی مسلم کو صرف سوچ کے اختلافات کے سبب کافر قرار دینے سے پرہیز کرے پھر امید ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کے سبب جہنم میں جانے سے بچ جائے۔
اور یہ بات بھی واضح کردوں کہ اب کوئی بھی مسلمان اللہ کا دوست تو بن سکتا ہے یعنی ولی اللہ لیکن صحابی ہرگز نہیں بن سکتا اور نہ ہی نبی بن سکتا ہے اس لیے جاہلوں اور جھوٹی نبوت کے دعویداروں کے جال میں پھنسنے سے پرہیز کریں۔
میرے پاس ایک ناقابل انکار ثبوت ہے جو کسی بھی عقل و شعور استعمال کرنے والےانسان کیلئے کافی ہے اور وہ یہ کہ میری تحقیق کے مطابق بریلوی، دیوبندی فرقے کے مسلمانوں میں سے تروتازہ لاشوں کے ثبوت ملے ہیں۔اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خود اپنی تحقیقات کرکے دیکھ لیں۔ فی الحال صرف ان دو فرقوں کو سامنے رکھ کر مثال سمجھانے کے لیے بیان کرتا ہوں۔
اگر صرف بریلوی جماعت جنتی ہے تو انکے فرقے کے فاسق و فاجر مسلمانوں کی لاشیں گل سٹر کر ختم کیو ں ہوگئیں؟ اگر صرف دیوبندی جماعت جنتی ہے تو انکے فرقے کے فاسق و فاجر مسلمانوں کی لاشیں گل سٹر کر ختم کیو ں ہوگئیں؟اگر ایک فرقہ جنتی ہے تو اس فرقے کے تمام لوگ جنتی ہونے چاہئیں یا اگر صرف نیکو کار ہی جنتی ہونگے تو پھر باقی فرقے میں سے نیک مسلمانوں کی لاشیں کیوں تروتازہ ہیں؟حالانکہ فرقی نظر سے دوسرے فرقہ ہی جہنمی ہے تو بھلا جہنمی فرقے میں لاشیں کہاں سے تروتازہ رہ گئیں؟ اسی طرح باقی فرقوں کو بھی قیاس کر لیں۔
لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ کے نزدیک معیار صرف دین اسلام ہے ۔ اگر کوئی مخصوص نام کا فرقہ جنتی ہوتا تو اللہ اس فرقے میں شا مل تمام انسانوں کی لاشوں کو محفوظ کرتا۔اور یہ اللہ کا قانون ہے کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہوتے ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے اسی لیے ان کا جسم محفوظ ہوتا ہے اور بعض اجسام میں تازہ خون بھی موجود ہوتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس دنیا سے انتقال ہوجانے کی وجہ سے اس کی لاش زندہ انسان کی طرح حرکت نہیں کرسکتی لیکن شہید کو روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
اس لئے ہمیں ہوش میں آنا چاہئے کہ حضورﷺ کی امت کو بکھیرنے کے بجائے انہیں حقیقی اور آسان دین اسلام پر عمل کرنے دیں جیسا کہ صحابہ کرام کیا کرتے تھے تاکہ سب آپس میں متحد ہوں۔
آج ہزاروں علمائےکرام اور ان کے ان گنت شاگرد تبلیغ کررہے ہیں،لاکھوںمذہبی کتابیں لکھی جاچکیں، ہزاروں ٹی وی پروگرام نشر ہوچکے، دنیا بھر میں ہزاروں مساجد میں ممبروں سے بیانات کے باوجود بے عملی اور کھلے عام حرام کاموں کا رواج چل رہا ہے حالانکہ اتنے وسائل نہ ہونے کے باوجود صحابہ کرام نے اسلام کو پھیلادیا تھاکیونکہ وہ باعمل لوگ تھے۔ مگر اب سب الٹا ہی نظر آتا ہے کیونکہ ہر فرقہ والا دوسرے فرقہ والے کو جہنمی یا باطل سمجھ کر لوگوں کو اپنے فرقے میں داخل کرنے پر کوشش کررہا ہے لیکن اتنی محنت غیرمسلموں کو اسلام میں داخل کرنے پر نہیں ہورہی۔ کیونکہ اپنے خول میں بند ہر کسی نے اپنے فرقہ کو جنتی ہونے کا سرٹیفیکٹ دے رکھا ہے اور دوسرے فرقو ں کوجہنمی قرار دے رکھا ہے لہذا اپنی بھر پور کوششیں اپنے فرقے پر استعمال کرتے ہیں ، اللہ کے دین اسلام اور حضورﷺ کی امت کیلئے نہیں۔
اسی سوچ کے حامل لوگوں نے اسلام پر اجارہ داری قائم رکھنے کی سوچ رکھی ہے کہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر چل رہا ہو اسے زبردستی فرقے میں گھسیٹ ڈالو حالانکہ اللہ نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کی مثال دے کر قرآن میں وضاحت کردی ہے پھر بھی اپنی منطق سے دین اسلام کو تماشہ بناکر رکھا ہوا ہے ۔ جن عقائد کے ساتھ صحابہ کرام جنت میں گئے انہی عقائد اور طریقوں پر چلنے والا مسلمان کسی فرقے کا محتاج نہیں۔اسلام کی حقیقت سے نا آشنا لوگ اس روشنی کو فرقے کے کنویں میں بند نہیں کرسکتے۔ بہتر تہتر سے کھیل کھیل کر پوری امت تقسیم کرکے ایک دوسرے کو کافر قرار دے ڈالا ہے۔
اس پر تھوڑی سی اور وضاحت کردوں تاکہ کسی شبہ کی گنجائش نہ رہے۔میری رائے کے مطابق ایک مخصوص عقائد و اعمال کے انسانوں کا طبقہ گروپ یا فرقہ کہلاتا ہےلہذا دنیا بھر میں جتنے بھی مسلمان صحیح عقائد و اعمال رکھتے ہونگے وہی اللہ کے نزدیک کامیاب مسلمان ہیں(دوسری نظر سے دیکھا جائے تو ایسے تمام لوگوں کا مجموعہ بھی سچے مسلمانوں کا گروپ ہی ہوا) اور جنت میں جانے کے حقدار ہیں ورنہ ہر فرقے میں لاکھوں بے نمازی، جھوٹے ،مکار، دھوکے باز وغیرہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں اگر صرف مخصوص نام کا فرقہ ہی جنتی ہوتا پھر لازمی ہے کہ اس فرقے کے تمام پیروکار موت کے بعد تروتازہ اور سلامت رہتے اپنی قبروں کے اندر جبکہ ایسا نہیں ہورہا۔
ایک مسلمان جس کے بنیادی عقائد صحیح ہوں اور وہ بغیر کسی فرقے سے تعلق رکھے،اللہ کے دین اسلام کے فرائض و واجبات نیز سنت موکدہ پر عمل کرتا ہو، اس بہتر تہتر کے مطابق چونکہ وہ کسی فرقے سے وابستہ نہیں ہوا اس لئے سیدھا جہنمی ہوگیا؟یہ بات عقل سے بالاتر ہے۔
کسی بھی مخلص مسلمان کیلئے اللہ بہت قدر شناس ہے اس لئے فرقہ پرستوں کے فتنے سے بچئے اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین اسلام پرعمل کی کوشش کیجئے اور اسے ہی غالب کرنے کے لیے کوشش کریں۔
واللہ اعلم باالصواب۔