ہم روز مرہ کی زندگی میں بہت سے اعمال سر انجام دیتے ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق دنیاوی معاملات سے ہوتا ہے اور کچھ کا تعلق عبادات سے۔ دنیاوی معاملات میں ہم لوگ بہت ہوشیار ی سے قدم اٹھانا پسند کرتے ہیں۔ پڑھائی سے لے کر ہر شعبے میں خوب سے خوب تر کی جستجو کرتے ہیں اور ناکام نہ ہونے کی خاطر ہر قدم اٹھاتے ہیں۔ اس معاملے میں دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں، دوسروں کی غلطیوں کو نہ دہرانے سے بچتے ہیں اور غرضیکہ ہم صرف کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ عبادات کے معاملے میں اکثر لوگ صرف اور صرف اپنے اپنے خیالات اور باپ دادوں کے طریقوں کے مطابق عمل سر انجام دیتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم نے اپنے رب کی عبادت ادا کردی۔ کبھی اتنی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ اس بات کو جانچیں کہ جو عمل ہم نے کیا ہے وہ صحیح بھی تھا یا نہیں؟
ہم اس بات پر ذرا غور نہیں کرتے کہ جس طرح ہم لوگ بغیر سوچے سمجھے اپنے پرانے لوگوں کی باتوں پربغیر تصدیق کئے یقین کرلیتے ہیں ، اسی طرح دوسرے لوگوں نے بھی اپنے زمانے میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیا ہوگا جس کے نتیجے میں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہا اور جہالت کے سبب ذاتی خیالات، سنی سنائی روایات،دوسروں کے جھوٹے دعووں کو اپنا کر دین اسلام کی اصل صورت کو مسخ کردیا گیا۔
کیا ہم لوگوں نے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی یہ سوچا ہے کہ جو عمل ہم روزانہ ، ماہانہ یا سالانہ عبادات کے طور پر ادا کرتے ہیں کیا وہ صحیح بھی ہیں؟ کیا میرا عمل میرے رب کے بتائے ہوتے طریقوں، شرائطوں کے عین مطابق ہے یا نہیں؟
ایک انصاری صحابی نے حضور ﷺ سے عرض کیا، سب سے زیادہ عقلمند کون ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو۔
اور ہم لوگ کیا کررہے ہیں؟ ہم لوگ صرف اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑے جارہے ہیں اور اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ بڑا رحیم و کریم ہے لہذا جیسے مرضی عمل کرتے رہو اس کا کام صرف معاف کرنا ہے حالانکہ اللہ عذاب دینے میں بھی بہت سخت ہےاور بڑی بڑی قوموں کو تباہ و برباد کرچکا ہے ان کی نافرمانیوں کے سبب۔