کون کہتا ہے کہ تعلیم سے انسان سوچ سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جاہل تو جاہل یہاں تو بڑے بڑے ڈگریاں لینے والے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سمیت سارے ایک ہی گڑھے میں نظر آتے ہیں۔ اگر بات صرف دنیا کے کاموں کی ہو تو کچھ اتفاقات اور واقعات صحیح ہو سکتے ہیں مگر جب ان باطل خیالات کا تعلق دین سے جوڑ دیا جائے پھر تو جہالت کی حد بھی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ ایک ایسی امت جس کیلئے کائنات کے خالق نے اعلی ترین ہستی حضرت محمدﷺ کو بھیجا ، قرآن کی صورت میں سچا پیغام نازل کیا، اسلام کی صورت میں دین مکمل کردیا ہواس امت نے تمام تر حقیقت اور سچائی کو پس پشت ڈال کر سنی سنائی جھوٹی باتیں، باپ دادائوں کی جھوٹی روایات، جہالت کی عبادات اور باطل خیالات کو دین سمجھا ہوا ہے اور ان سب پر اس حد تک یقین سے عمل کرتے ہیں جیسے کہ یہ سب اللہ اور رسولﷺ نے سکھایا ہو۔ اب اگر کوئی آج کے مسلمانوںسے پوچھے کہ ان باتوں کا کیا ثبوت ہے تو کچھ اس طرح کہ جوابات سننے کو ملتے ہیں کہ...
’ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے‘۔ ’ہمارے بڑے بوڑھے ایسا کیا کرتے تھے‘۔ ’ہم نے سنا ہے کہ‘۔اب مزے کی بات یہ ہے کہ عمل کرنے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ وہ عمل کس بنیاد پر کرتے ہیں۔
"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس کی جو اللہ نے نازل فرمائی ہے تو کہتے ہیں : بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اَجداد کو پایا ہے خواہ انہیں شیطان بلا رہا ہو جہنم کے عذاب کی طرف" - سورہ لقمان، آیت ۲۱
اس لئے کہ بندگی سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات کیلئے صرف قرآن و حدیث ہی ناقابل انکار ثبوت ہیں اور اس کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے کہ انہیں بیان کرنے والا اور سمجھانے والا عالم دین حق اور سچ کہے نہ کہ صرف اپنے مطلب کی وضاحت کرے اور غلط مائنڈسیٹ تیار کردے کیونکہ اکثر علماء آپس میں صرف حسد کی بنا پر ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے لگ جاتے ہیں اور شیطان انہیں اصل مقصد یعنی غلبہ اسلام سے گمراہ کردیتا ہے۔
یاد رکھئے ،دنیا کے معاملات تو دنیا ہی میں پرکھے جاسکتے ہیں مگر آخرت کے معاملات کو باطل خیالات کی نظر کرکے ہمیشہ کی زندگی برباد کردینا اور دنیا میں یہ سمجھنا کہ اللہ معاف کرنے والا ہے لہذا جیسے مرضی عبادت کرلو وہ قبول کرے گا صرف ایک جہالت کی بات ہے ۔اللہ نے قانون بنائے ہیں اور انسان کو زندگی دی ہے ۔ وہ انسان کو زندگی بھراپنی نعمتیں عطا کرتا ہے مثلاً: ملازمت ،کھانا پینا،خاندان، دوست،شعور ،دولت،گھر ،گاڑی، کمپیوٹر، ٹی وی، فون، پھل، سبزیاں وغیرہ۔اللہ نے انسان پرعلم حاصل کرنا فرض کیاہے۔حضورﷺکے ذریعہ میں معلوم ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے۔ اب اگر انسان دنیا کے علوم کیلئے 14سے 18سال تک اسکول، کالج، یونیورسٹی تک دن رات محنت کرے اوردین کا صرف بنیادی علم حاصل کرنے میں غفلت کرے جو کہ صرف چند مہینوں کی محنت سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور کبھی قرآن کھول کر حقیقت نہ دیکھے، کبھی حدیث نہ پڑھے، کبھی دینی مسائل نہ سیکھے اور جہالت کے ساتھ اپنے باطل خیالات کو حق سمجھے اور اسی پر قائم رہ کر زندگی گزارے تو پھر اللہ کو پورا حق حاصل ہے کہ ایسے انسان کو اِس سستی اور غرور کی سخت سزا دے کیونکہ اس انسان نے اللہ کے معاملے کو سب سے معمولی اور کم درجے کا سمجھا۔